غلطی کا احسا س (محمد احسان ۔ لا ہور )
صائمہ ایک بہت اچھی بچی تھی ۔ لیکن اس کی ایک عا دت بہت خرا ب تھی کہ وہ ہر ایک کا مذا ق اڑایا کر تی تھی ۔ اس کے سکول میں ایک لڑکی ثنا ءتھی ۔ جو بہت کا لی تھی اور اس کی ٹانگ میں معمولی سا نقص تھا جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتی تھی ۔صائمہ سکول میں ہروقت اس کا مذا ق اڑایا کر تی تھی ۔ اس کی والدہ نے اسے بہت دفعہ سمجھا یا کہ بیٹا کسی کا مذاق اڑانا بری بات ہے لیکن صائمہ پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ ایک دفعہ صائمہ اپنی دوستوں کے ساتھ سکول میں کھیل رہی تھی ۔ کھیلتے کھیلتے ا س کا پا ﺅ ں سلپ ہو گیا اور وہ گر پڑی ۔ اسے بہت زور کی چوٹ لگی اور اس کے پا ﺅ ں میں مو چ آگئی ۔ درد کی شدت کی وجہ سے اس کا برا حال تھا ۔ سکو ل کی میڈم نے فون کر کے اس کی والدہ کو بلا یا ۔ اسکی والدہ فوراً اسے ڈاکٹر کے پا س لے گئیں ۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرکے اس کو دوا دی اور پا ﺅ ں پر بینڈ یج باندھ دی۔ صائمہ کو پا ﺅ ں میں بے حد تکلیف تھی ۔ والدہ اسے سہارا دیکر گھر لے گئیں اور اسے ا س کے کمرے میں لٹا دیا صائمہ درد کی وجہ سے روتے روتے سو گئی ۔
اس نے دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت با غ ہے ۔ جس میں بہت پیا رے پیا رے بچے کھیل رہے ہیں اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہے ۔ جب اس نے بچو ں سے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ کھیلنا چا ہتی ہو ں تو سب بچو ں نے جوا ب دیا، تم تو لنگڑی ہو ۔ تم ہما رے ساتھ نہیں کھیل سکتی ۔ تم گندی اور لنگڑی بچی ہو ۔ صائمہ کو یہ سن کو بہت افسو س ہوا اور اسے یہ احساس ہو اکہ جب وہ اسی طر ح ثنا ءکو کا لی ، لنگڑی کہتی ہے تو اسے کتنی تکلیف ہو تی ہو گی ۔ صائمہ کو یہ سوچ کر رونا آگیا اور وہ زور زور سے روتے روتے کہنے لگی ۔ اللہ میا ں میرے پیارے اللہ میا ں مجھے ٹھیک کر دیں ۔ میں آئندہ کسی کا مذا ق نہیں اڑاﺅنگی اور نہ کسی کو برے نام سے پکارونگی۔ صائمہ کی والدہ نے صائمہ کے رونے اور بولنے کی آواز سنی تو وہ فوراً اس کے کمرے میں گئیں ۔ دیکھا کہ صائمہ نیند میں رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے اللہ میا ں مجھے معا ف کر دیں، اللہ میا ں مجھے معاف کر دیں۔ صائمہ کی والدہ نے اسے اٹھا یا اور پو چھا بیٹا ! کیا ہوا؟ صائمہ فورا ً والدہ سے لپٹ گئی اور کہنے لگی امی جان میں آپ سے وعدہ کر تی ہو ں کہ آئندہ میں کسی کو برے نام سے نہیں پکا رو نگی اور نہ ہی کسی کا مذاق اڑاﺅنگی کیونکہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کسی کا دل دکھانا کتنا گنا ہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اے مسلمانو! تم کسی کا مذاق نہ اُڑاﺅ نہ کسی دوسرے مسلمان سے تمسخر کرواورنہ کسی کو برے نام سے پکا رو ۔ اب میں کبھی کسی کا دل نہیں دکھا ﺅ نگی ۔ اس طر ح صائمہ ایک اچھی بچی بن گئی اور وہ ہمیشہ سب کے ساتھ مل کر رہنے لگی۔ ہمیں امید ہے بچو آپ بھی صائمہ کی طر ح آئندہ کسی کو برے نامو ں سے نہیں پکا ریں گے ۔
انتقام (ثنا ءاللہ ، کر اچی )
چند رومیوں نے ایک قریشی مسلمان کو گر فتا ر کرکے روم کے پایہ تخت قسطنطینہ پہنچا دیا ۔ اسے رومی با د شاہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔ جب اس سے سوا لا ت پو چھے گئے تو اس نے نہا یت دلیری سے جوا بات دیے۔ اس کی جرات پر سپہ سالار کو غصہ آگیا ۔ اس نے مسلمان کے منہ پر طما نچہ دے ما را ۔ طما نچہ کھا کر قریشی پکا ر اٹھا : ” اے معا ویہ رضی اللہ عنہ !میرا اور آپ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کریں گے ، آپ ہما رے امیر ہیں اور یہا ں مجھ پر ظلم ہو رہا ہے ۔“قریشی کی یہ با ت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس قیدی کا فدیہ بھجوا کر اسے آزاد کر ا لیاپھر اس سے رومی سپہ سالا ر کا نام پو چھا ، جس نے تھپڑ مارا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بہت غور وفکر کے بعد اپنے ایک خاص تجربہ کا ر سر دار کو منتخب کیا اور فرمایا تم اسے کسی طرح پکڑ کر لاﺅ ۔ “ سر دار نے غور کیا اور کہا : ” ا س کے لیے ایک ایسی کشتی کی ضرورت ہو گی جس میں خفیہ چپو لگے ہو ں اور جو بہت تیز رفتار ہو ۔“ حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے مزید فرمایا : ” جو سمجھ میں آئے کر و، تمہیںہر طر ح اختیا ر ہے ۔ “
اب اس نے کشتی تیا ر کروائی ، جب وہ تیا ر ہو گئی تو اس پر بے شما ر تحائف لدوائے ۔ اب وہ اس کشتی پر ایک تا جر کے روپ میں قسطنطنیہ پہنچا ۔ تھوڑی بہت تجا رت کرنے کے بعد با دشاہ سے ملا ، ا س کے وزیروں اور دوسرے در با ریو ں سے ملا۔ ان سب کو تحفے دیے مگر اس سپہ سالا ر کو کوئی تحفہ نہ دیا۔ وہ سپہ سالار علیحدگی میں اس سردار سے ملا اور ا س سے شکایت کی کہ اس نے اسے کوئی تحفہ نہ دیا ۔ سر دار نے اس سے کہا : ” معا ف کیجئے گا ، میں آپ کو پہچانتا نہیں تھا ۔ اب پہچان لیا ہے ، اگلی مر تبہ آپ کو خاص تحائف دو ں گا ۔ “ یہ وعدہ کر کے وہ لو ٹ آیا اور اپنی کا ر گزاری کی اطلا ع حضر ت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ کو دی ۔ انہوں نے اطمینان ظاہر فر مایا ۔ وہ دوسری بار پہلے کی نسبت کئی گنا ہ زیادہ تحائف لے کر روانہ ہوا۔ اس بار اس نے پھر ان لوگو ں کو تحفے دیے ۔ اس سپہ سالا ر کو بھی دیے ، ساتھ ہی اس سے کہا : ” کشتی پر چند خاص تحائف اور مو جو د ہیں۔ وہ میں خاص طور پر آپ کے لیے لا یا ہو ں ، کیونکہ پہلی بار آ پ کو کوئی تحفہ نہیں دے سکا تھا ۔ لہذا آپ میرے ساتھ کشتی پر چلیے ۔“ اس طر ح وہ کشتی پر چلا آیا ۔ اسے کشتی میں بٹھا کر تحفے دکھانے لگا ۔ ادھر اس کے ساتھی خفیہ چپو چلا نے لگے ۔ سپہ سالار کو پتا تک نہ چلا کہ کشتی چل پڑی ہے ۔ اس طرح کشتی کھلے سمند ر میں آگئی ۔ اب انہو ں نے اس سپہ سالار کو باندھ لیا ، یہاں تک کہ اپنے ملک لے آئے ۔ اسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس قریشی مسلمان کو بلوایا اور فرمایا : ”کیا یہ ہے وہ رومی سپہ سالار جس نے تمہیں تھپڑ ما را تھا ؟ “ اس نے جوا ب دیا : ” جی ہا ں ! یہی ہے ۔“ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : ” بس تو پھر تم بھی اسے ویسا ہی تھپڑ ما رو لیکن اس سے زیادہ نہ ما رنا۔“ قریشی نے اٹھ کر اس کے منہ پر تھپڑ دے ما را ۔ اب حضرت امیر معا ویہ رضی اللہ عنہ نے سر دار سے کہا : ” اب اسے تحا ئف دے کر واپس چھوڑ آﺅ ۔“ ساتھ میں آپ نے رومی سے کہا : ”اپنے با دشاہ سے کہہ دینا کہ مسلمانوں کا خلیفہ اس با ت کی طاقت رکھتا ہے کہ تمہا رے در بار میں بیٹھنے والے سالاروں سے کسی مسلمان کا بدلہ لے سکے ۔“ رومی سالار اپنے با دشاہ کے در بار میں پہنچا ، اسے ساری کہا نی سنائی ۔ پو را واقعہ سن کر رومی بادشاہ کے دل میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہیبت بیٹھ گئی ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 610
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں